ٹیلی پیتھی
وجود میں چبھن سی ہے
گھٹن بھی ہے
سُلگ رہی ہے سانس بھی
کس لیے؟ نہیں پتہ
دل وہیں پہ ہے محفوظ
جس جگہ پہ پتھر ہے
آدمی کا دامن ہو یا پہاڑ کا دامن
تنگ و تار گلیوں میں
گَرد وَرد اُڑتی ہے
درد وَرد ہوتا ہے
ایک سا ہی موسم ہے
رُوح اُداس پھرتی ہے
زائچے بنانے میں
ذہن اُلجھا رہتا ہے
کتنے بے سلیقہ ہیں نقش اور نگار اپنے
کھڑکیاں سہولت سے گھر میں
رکھ دیں ہیں، لیکن
چاند کے مخالف ہیں
نیند خواب کے رُخ پر
کروٹیں بدلتی ہے
پوری رات جلتے ہیں
کوئی ٹیلی پیتھی ہے
جو سمجھ نہیں آتی
سلیم شہزاد
No comments:
Post a Comment