کٹی نہ شام، نہ منظر ڈھلا نہ تُو آئی
ہمارے ہاتھ فقط سِگرٹوں کی بُو آئی
ہماری آنکھ نے کچھ خواب مختلف دیکھے
ہمارے حصے میں کچھ آگ فالتو آئی
اداس دن تھے شبوں پر تھا رتجگوں کا غبار
پھر اس خرابے میں اک دن وہ ماہ رُو آئی
رِدھم میں آ گئیں صبحیں، بدل گئیں شامیں
ہے جب سے خانۂ دل میں وہ خوش گلُو آئی
طٰہٰ ابراہیم
No comments:
Post a Comment