ڈھل کے اشعار میں آ سادہ بیانی میں اُتر
اپنا کردار نبھا اور کہانی میں اتر
کارواں زیست کا آگے نہ نکل جائے کہیں
ہمنوا دیر نہ کر آ کے جوانی میں اتر
تتلیوں سنگ کبھی صحن گلستاں میں آ
بن کے خوشبو تو کبھی رات کی رانی میں اتر
خواہش دید لیے جھیل کنارے ہوں کھڑا
چاندنی اوڑھ کے جلدی سے تُو پانی میں اتر
اپنے بیمار سے مل آ کے اے خوابوں کے رفیق
بن کے امرت تُو مِری سوختہ جانی میں اتر
میری غزلوں کی ثمر ظاہری ہیئت پہ نہ جا
فکر کے زینے سے آ اور معانی میں اتر
ثمریاب ثمر
ثمر سہارنپوری
No comments:
Post a Comment