Sunday, 25 July 2021

راحت و رنج سے جدا ہو کر

 راحت و رنج سے جدا ہو کر

بیٹھ رہیے کہیں خدا ہو کر

لوٹ آیا ہے آنکھ کے در پر

خواب تعبیر سے رہا ہو کر

لطف آیا نظر کو جلنے میں

چاند کے سامنے دِیا ہو کر

اے مِرے شعر اپنی تابانی

دیکھ اس شوخ سے ادا ہو کر

حبس ہوتا گیا خُمار اپنا

رنگ اُڑتے گئے ہوا ہو کر

خیمۂ گُل لپیٹ لے ہمدم

دیکھ صرصر چلی صبا ہو کر


حسین عابد

No comments:

Post a Comment