مہلت
سرِ مژگاں ابد آثار امیدوں کا سیلِ خوش نگاہی
بہہ رہا ہے
اور میں مہلت کی خواہش کے کٹاؤ سے ذرا آگے
ارادوں کے حقیقی بانجھ پن کی گونج سنتا ہوں
یہیں تم تھے
یہیں میں تھا
مگر اب راکھ اڑتی ہے
تمہارے حسن کی جولاں
مِری عجلت کی سرشاری
کبھی وقفے کی بیزاری
بدن کی ساکھ جھڑتی ہے
مجھے بوسیدہ فکر و قدر کی شہہ پر
دماغوں کی فنا کا مرثیہ لکھنا تھا لیکن
میں نے
ہنستی مسکراتی نظم لکھی ہے
نعیم رضا
No comments:
Post a Comment