باندھ کر پیاس کو پانی میں لیے پھرتا ہوں
عشق کی آگ جوانی میں لیے پھرتا ہوں
ایک کردار جو آیا نہ پلٹ کر واپس
آج بھی اپنی کہانی میں لیے پھرتا ہوں
اس لیے یاد مجھے آتا ہے تُو ہر لمحہ
خود کو میں تیری نشانی میں لیے پھرتا ہوں
رقص کرتے ہوئے ہو جاتا ہوں خوشبو کی طرح
خود کو میں رات کی رانی میں لیے پھرتا ہوں
اک جدائی کی خزاں ہے کہ جسے صدیوں سے
موسمِ گل کی روانی میں لیے پھرتا ہوں
عکس کی موت بنی جب سے مِری آنکھ زعیم
شکل اک آئینہ خوانی میں لیے پھرتا ہوں
زعیم رشید
No comments:
Post a Comment