Wednesday, 15 September 2021

باندھ کر پیاس کو پانی میں لیے پھرتا ہوں

 باندھ کر پیاس کو پانی میں لیے پھرتا ہوں

عشق کی آگ جوانی میں لیے پھرتا ہوں

ایک کردار جو آیا نہ پلٹ کر واپس

آج بھی اپنی کہانی میں لیے پھرتا ہوں

اس لیے یاد مجھے آتا ہے تُو ہر لمحہ

خود کو میں تیری نشانی میں لیے پھرتا ہوں

رقص کرتے ہوئے ہو جاتا ہوں خوشبو کی طرح

خود کو میں رات کی رانی میں لیے پھرتا ہوں

اک جدائی کی خزاں ہے کہ جسے صدیوں سے

موسمِ گل کی روانی میں لیے پھرتا ہوں

عکس کی موت بنی جب سے مِری آنکھ زعیم

شکل اک آئینہ خوانی میں لیے پھرتا ہوں


زعیم رشید

No comments:

Post a Comment