آنکھ سے دشت کی ویرانی بدل آتے ہیں
جی تو لینے دے ذرا ہم کو اجل! آتے ہیں
اتنا زرخیز بدن ہے کہ جہاں پیر دھرے
گھاس اُگتی ہے، نئے پھول نکل آتے ہیں
ورنہ وہ دن ہیں کہ خود سے بھی ہے اکتاہٹ سی
اب اگر تُو نے بلایا ہے تو چل، آتے ہیں
ایک ہی بار میں کب ہوتا ہے بدظن کوئی
ایک ترتیب سے اس رسی میں بل آتے ہیں
یہ نا ہو تیری حکایات تِرے ہاتھ میں دیں
دیکھ ہم سادہ بیانوں کو بھی چھل آتے ہیں
وقتِ رخصت ہے سو دل یار، دلاسے مت دے
جو یہاں آج نہیں ہیں کہاں کل آتے ہیں
ڈوبتا دیکھ کر یاروں نے صدائیں باندھیں
دیکھ تو خود کو بچا یار سنبھل، آتے ہیں
رات ڈھلتے ہی پگھلتی ہوں مقدس میں بھی
دیپ جلتے ہیں تو کچھ چشمے ابل آتے ہیں
مقدس ملک
No comments:
Post a Comment