آئی صبا ہے کاکلِ گُل کو سنوار کے
پُھولوں کے رُخ کو آ گئی شبنم نکھار کے
اس کارگاہِ زیست کا ہے منتظم وہی
دیکھو بغور کام یہ پروردگار کے
اُس کے کرم سے وقت گزرتا ہے اس طرح
عادی ہوئے ہیں گردشِ لیل و نہار کے
سجدے میں سر جھکائے ہیں نجم و شجر، حجر
نغمے اُسی کی حمد میں ہیں آبشار کے
چاہے تو ایک اشکِ ندامت پہ بخش دے
کیا سمجھے کوئی راز اس آمرزگار کے
پائے گا بالیقیں اسے شہ رگ سے بھی قریب
دیکھے تو کوئی مرکزِ دل سے پکار کے
اے پھول! خشک پتے وہاں سے نکل گئے
جھونکے چمن میں آئے جو بادِ بہار کے
تنویر پھول
No comments:
Post a Comment