وہ میری آگ میں جلتا ہے کہہ نہیں سکتا
یہ آنچ وہ ہے، جو پتھر بھی سہہ نہیں سکتا
وہ میرے پاس بھی آئے، تو آ سکے نہ کبھی
وہ مجھ سے دور رہے بھی، تو رہ نہیں سکتا
مجھے وہ دل سے بھلا دے یہ اس کے بس میں نہیں
مجھے وہ غیر ہی کہہ دے تو کہہ نہیں سکتا
میں نیم جاں ہوں تِرے ہجر کے عذابوں سے
میں کوئی اور نیا زخم، سہہ نہیں سکتا
یہ مانتا ہوں مِری طرح بے قرار ہے وہ
مگر وہ میری طرح، شعر کہہ نہیں سکتا
یہ میری آنکھ تو پایاب ہو گئی کب سے
میں خشک دریا میں تنویر بہہ نہیں سکتا
تنویر سیٹھی
No comments:
Post a Comment