Wednesday, 15 September 2021

صحرا کی سرزمین گلوں سے سنور گئی

 صحرا کی سرزمین گلوں سے سنور گئی

آخر ہمارے درد کی خوشبو بکھر گئی

بھیگی ہوئی سی ریت میں موتی بھی دفن تھے

ساحل پہ آ کے موجِ بلا بھی ٹھہر گئی

آسودہ ہو چکی تھی تِری چشمِ نم مگر

میرے غمِ حیات کا پیمانہ بھر گئی

لے کر پیامِ زندگی پھر آ گئے ہیں آپ

جب ساعتِ حیات ہماری گزر گئی

کس کو خبر کہ کیسے ہوئی ہم سے یہ خطا

دل کے ورق پہ آپ کی صورت اُتر گئی

جلنے لگے ہیں آپ کی آنکھوں میں بھی چراغ

اس طرح اپنی شامِ تمنا سنور گئی

آہٹ پہ چونکتے رہے ہم تاج بار بار

عالم میں انتظار کے اپنی گزر گئی


فاطمہ تاج

No comments:

Post a Comment