Wednesday, 15 September 2021

یہ نظم جاری رہے گی جاناں سو بد دعاؤں میں یاد رکھنا

 The Half Curse


کسی کا کچھ ہے

کسی کا کچھ نئیں

کسی کا کیا ہے

عجیب لفظوں کی اک کتھا ہے

یہ نظم شاعر کی بدعا ہے

تو جان سن لو

جو میرے کمرے میں چند جگنو تھے مر گئے ہیں

مجھے وہ جاں سے عزیز تر تھے

ابھی وہ لاشیں مِرے ہی آگے پڑی ہوئی ہیں

مگر میں ان کا کوئی جنازہ نہیں پڑھوں گا

مجھے اندھیرا سکون دینے لگا ہے شاید

ابھی جو فتوے لگا رہے ہیں ذرا یہ سن لیں

یہ نظم میں نے ابھی مکمل نہیں پڑھی ہے

یہ نظم شاید ابھی شروع بھی نہیں ہوئی ہے

یہ انتہاؤں کی بے حسی ہے

یہ ایک مُردے کی خودکشی ہے

یہ جسم زخموں سے بھر چکا ہے

یہ نظم شاعر کی بددعا ہے

تو جان سن لو

مجھے تو میرے زوال کی سب خبر تھی جاناں

مجھے یہ ہو گا، پتا تھا لیکن تمہیں بتا دوں

تمہیں خبر بھی نہیں ملے گی تباہیوں کی

تمہیں تمہارے قدم زمیں سے کھدیڑ دیں گے

تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا کہ کیا ہوا ہے

تمہیں تمہارے ہی سب محافظ ادھیڑ دیں گے

تمہیں پتا ہی نہیں چلے گا

تمہیں خبر ہی نہیں ملے گی

کہ کون تم کو بتائے گا پھر

کہ کون تم کو سکھائے گا کہ

رقیب زخموں کو کن طریقوں سے چھیلنا ہے

یا کس طرح سے دقیق راتوں میں چیخنا ہے

یا کس طرح کے یہ مرض ہیں یا علاج کیا ہے

یا نیند میں بھی یوں جاگنے کا رواج کیا ہے

تم ایک کمرے میں روز میلوں سفر کرو گی

تمہیں ابھی کچھ اثر نہیں ہے مگر کرو گی

مجھے تو ماتم کی اک سہولت ملی تھی لیکن

تمہیں تو وہ بھی نہیں ملے گی

وجودِ باقی کا کیا بنے گا؟ خدا ہی جانے

بدن تو شاید چھپا ہی لو گی، مگر یہ آنکھیں

سبھی سے رو رو کے یہ کہیں گی کہاں گیا وہ؟

کہاں گیا وہ عجیب شاعر؟

جسے اذیت پہ دسترس تھی

ابھی تو شاید یہیں کہیں تھا

وہیں پہ جاناں یقین جانو

تمہیں یہ دیمک بھی آ لگے گی

جوان بِچُھو تمام قوت سے یوں ڈسیں گے

تمہاری آنکھیں، وہ پیاری آنکھیں

جنہیں میں ماضی میں چومتا تھا

انہیں وہ بِچُھو

غلیظ ِچُھو

ادھیڑ دیں گے

مِری رگیں اب کبھی بھی پھٹنے کی منتظر ہیں

یہ نظم پھٹنے لگی ہے جاناں

ابھی میں اتنا ہی لکھ سکوں گا

یہ نظم مجھ سے کبھی مکمل نہیں ہوئی ہے

یہ نظم جاری رہے گی جاناں

سو بد دعاؤں میں یاد رکھنا


حیدر علی

2 comments: