خواب آنکھوں کے لُٹا کر رویا
دو قدم دور ہٹا کر رویا
سُرمئی آنکھ کا پانی تھا کوئی
مجھ کو آنکھوں سے بہا کر رویا
زندگی دھوپ کی کرنوں میں رہی
موت سپنوں میں سجا کر رویا
وصل کی شام بڑی گہری تھی
ہجر کے رنگ چھپا کر رویا
کس نے فریاد سنی تھی دل کی
خود کو ہی درد سنا کر رویا
وشال سحر
No comments:
Post a Comment