Sunday, 27 February 2022

یہ مانتے ہیں فلک بے ردا نہیں ہوئے ہیں

 یہ مانتے ہیں فلک، بے ردا نہیں ہوئے ہیں

زمیں کے لوگ ابھی ماجرا نہیں ہوئے ہیں

بدن کا ذائقہ کیسا ہے ہم کو کیا معلوم

کسی کے لمس سے ہم آشنا نہیں ہوئے ہیں

ہم ایسے لوگ سدا انتہا پہ کام آئے

ہم ایسے لوگ کبھی ابتداء نہیں ہوئے ہیں

پرانے عہد کی سلوٹ ہے دل کی چادر پر

ابھی ابھی کوئی ہم بے وفا نہیں ہوئے ہیں

وہی ہے لہجہ بھی اپنا وہی خدائی ہے

کوئی بھی سین ہو ہم التجا نہیں ہوئے ہیں

کہانی کار نے لکھا تھا ہجر میں مرنا

ہم ایسے عشق میں ہی مبتلا نہیں ہوئے ہیں

کسی کے واسطے ہم سر پہ چھاؤں جیسے تھے

کسی کے واسطے ہم بوریا نہیں ہوئے ہیں

خدایا وقت کے واعظ کو بخش دیجیے گا

ہمارا جرم ہے ہم پارسا نہیں ہوئے ہیں


اویس علی

No comments:

Post a Comment