Sunday, 27 February 2022

نگاہ شوق سے ہر دل کا کاروبار چلے

 نگاہِ شوق سے ہر دل کا کاروبار چلے

مزہ تو جب ہے کہ نقشِ قدم پہ یار چلے

ہے جس کو اپنی محبت کی سرحدیں معلوم

نہ کوئے یار میں آئے نہ سوئے دار چلے

دیارِ دوست سے اٹھے تو پھر کدھر جائے

یہ ضد ہے ان کی یہاں سے ہر اک غبار چلے

وہی تھے زیست کے حاصل وہی حقیقت تھے

جو لمحے تیرے خیالوں میں ہم گزار چلے

بچھڑ کے تجھ سے یہ عالم ہے بدحواسی کا

زمانے بھر کو تیرے نام سے پکار چلے

تیرے خیال سے نکلے تو خود سے دور ہوئے

یہ زندگی بھی تجھی پر مگر نثار چلے


راشد فضلی

No comments:

Post a Comment