حروف چند مری شاعری کے چاروں طرف
کہ جیسے پانی ہو تشنہ لبی کے چاروں طرف
ہزار بار بجھی آنکھ 👁👁 پھر ہوئی روشن
کچھ آئینے بھی تھے بے چہرگی کے چاروں طرف
بہت سے خواب تھے رنگین اس کے تھیلے میں
سو لوگ بیٹھ گئے اجنبی کے چاروں طرف
ہوا بدلنے کی آنے لگی ہے خوش خبری
بہت دھواں تھا گزرتی گھڑی کے چاروں طرف
ہم آنے والے زمانوں سے دور کیوں نہ رکھیں
جو الجھنیں ہیں ہماری صدی کے چاروں طرف
یہ کھیل آنکھ مچولی کا دادا پوتے میں
ہنسی کا ہالہ ہے سنجیدگی کے چاروں طرف
جزیرے چھوٹے بڑے ہیں کسی تسلی کے
مِری نگاہ میں ٹہری نمی کے چاروں طرف
مکان کھولا گیا گھر میں آنے والوں پر
شجر لگائے گئے بے گھری کے چاروں طرف
چلو حمیرا! کوئی نیک کام کرتے ہیں
امنگ بوتے ہیں مردہ دلی کے چاروں طرف
حمیرا رحمان
No comments:
Post a Comment