Monday, 28 February 2022

پروان چڑھ رہی تھی جو چاہت عجیب تھی

 پروان چڑھ رہی تھی جو چاہت عجیب تھی

تھا اشتیاق اور وہ حسرت عجیب تھی

اک کیف تھا کہ کر نہ سکوں میں بیاں جسے

تھا اک جنون جس میں کہ لذت عجیب تھی

رخسار سرخ ہوتے تھے احساسِ قرب سے

تھا سحر اس کے نام میں رغبت عجیب تھی

پرواز ان دنوں تھی ہواؤں کے دوش پر

سرشار بھی تھے عشق میں لذت عجیب تھی

دیکھا کیا وہ بیٹھ کے پہلو میں ایک ٹک

اس کی نگاہِ شوق میں چاہت عجیب تھی

ہے یاد رخصتی پہ پھڑکنا وہ آنکھ کا

کچھ وسوسے تھے قلب میں وحشت عجیب تھی

مڑ مڑ کے دور تک وہ تجھے دیکھنا مِرا

تھا امتحانِ بخت وہ ساعت عجیب تھی

جس پر تھا اعتماد وہ اغیار سے ملا

ہر آن دل پہ ایک قیامت عجیب تھی

تذلیل و طنز قلب کو مجروح کر گئے

گو تھا وہ ہم نشین پہ فطرت عجیب تھی

لگتا ہے اس نے شب میں حیا کو کیا ہے یاد

زخموں میں کل جو ٹیس کی شدت عجيب تھی


نفیسہ حیا

نفیس سلیم

No comments:

Post a Comment