پروان چڑھ رہی تھی جو چاہت عجیب تھی
تھا اشتیاق اور وہ حسرت عجیب تھی
اک کیف تھا کہ کر نہ سکوں میں بیاں جسے
تھا اک جنون جس میں کہ لذت عجیب تھی
رخسار سرخ ہوتے تھے احساسِ قرب سے
تھا سحر اس کے نام میں رغبت عجیب تھی
پرواز ان دنوں تھی ہواؤں کے دوش پر
سرشار بھی تھے عشق میں لذت عجیب تھی
دیکھا کیا وہ بیٹھ کے پہلو میں ایک ٹک
اس کی نگاہِ شوق میں چاہت عجیب تھی
ہے یاد رخصتی پہ پھڑکنا وہ آنکھ کا
کچھ وسوسے تھے قلب میں وحشت عجیب تھی
مڑ مڑ کے دور تک وہ تجھے دیکھنا مِرا
تھا امتحانِ بخت وہ ساعت عجیب تھی
جس پر تھا اعتماد وہ اغیار سے ملا
ہر آن دل پہ ایک قیامت عجیب تھی
تذلیل و طنز قلب کو مجروح کر گئے
گو تھا وہ ہم نشین پہ فطرت عجیب تھی
لگتا ہے اس نے شب میں حیا کو کیا ہے یاد
زخموں میں کل جو ٹیس کی شدت عجيب تھی
نفیسہ حیا
نفیس سلیم
No comments:
Post a Comment