Monday 28 February 2022

سو دریا پی چکا ہوں پھر بھی کیوں پیاسا ہوں میں

 سو دریا پی چکا ہوں پھر بھی کیوں پیاسا ہوں میں

پتی پتی پرسے شبنم چاٹتا پھرتا ہوں ہوں میں

تیری زلفوں کی مہک تیرے بدن کی خوشبو ملی

اجنبی راہوں سے ہو کر جب گزرا ہوں میں

بن چکا ہوں اب پرانے موسموں کی یادگار

زندگی کی شاخ پر سوکھا ہوا پتا ہوں میں

تو کہاں جائے گا مجھ سے دور میرے دل سے دور

تو میری قسمت ہے تیرے ہاتھوں کی ریکھاہوں میں

بات کیا تھی کس لیے وہ مجھ سے برگشتہ ہوا

اب بھی تنہائی میں اکثر سوچتا رہتا ہوں میں

مل گیا جب راہ میں کوئی تو کہنا ہی پڑا

بس نوازش ہے کرم ہے آپ کا اچھا ہوں میں

ساغر جم جان کر رکھتا تھا وہ مجھ کو عزیز

توڑ ڈالا جب کھلا اس پر کہ آئینہ ہوں میں

مجھ کو بھی ناصر نہیں معلوم میری وسعتیں

گنبدِ بے در ہوں یا پھر بیکراں صحرا ہوں میں


ناصر سلیم

No comments:

Post a Comment