سو دریا پی چکا ہوں پھر بھی کیوں پیاسا ہوں میں
پتی پتی پرسے شبنم چاٹتا پھرتا ہوں ہوں میں
تیری زلفوں کی مہک تیرے بدن کی خوشبو ملی
اجنبی راہوں سے ہو کر جب گزرا ہوں میں
بن چکا ہوں اب پرانے موسموں کی یادگار
زندگی کی شاخ پر سوکھا ہوا پتا ہوں میں
تو کہاں جائے گا مجھ سے دور میرے دل سے دور
تو میری قسمت ہے تیرے ہاتھوں کی ریکھاہوں میں
بات کیا تھی کس لیے وہ مجھ سے برگشتہ ہوا
اب بھی تنہائی میں اکثر سوچتا رہتا ہوں میں
مل گیا جب راہ میں کوئی تو کہنا ہی پڑا
بس نوازش ہے کرم ہے آپ کا اچھا ہوں میں
ساغر جم جان کر رکھتا تھا وہ مجھ کو عزیز
توڑ ڈالا جب کھلا اس پر کہ آئینہ ہوں میں
مجھ کو بھی ناصر نہیں معلوم میری وسعتیں
گنبدِ بے در ہوں یا پھر بیکراں صحرا ہوں میں
ناصر سلیم
No comments:
Post a Comment