Monday, 28 February 2022

زخم جو رسنے لگا دل کے قریں پہلے سے تھا

 زخم جو رِسنے لگا، دل کے قریں پہلے سے تھا

آنسوؤں کا آنکھ سے رستہ کہیں پہلے سے تھا

لازمی تھا، آسماں چُھونے کی خواہش ساتھ ہو

نارسائی کا مجھے ورنہ یقیں پہلے سے تھا

عین ممکن ہے نیا پن آج کچھ نظروں میں ہو

دل مگر کہتا ہے وہ اتنا حسیں پہلے سے تھا

اس تذبذب میں ہوں میں تیرے نئے برتاؤ پر

پہلے تُو ایسا نہیں تھا یا نہیں، پہلے سے تھا

آج مجبوری تھا کُھل کے بولنا، حیراں نہ ہو

کیسے سمجھاؤں تجھے میں نکتہ چیں پہلے سے تھا


عاصم ثقلین

No comments:

Post a Comment