مِرا محافظ ڈرا ہوا ہے
سکرپٹ سارا لکھا ہوا ہے
یہ کام اس پر ہی ہو رہا ہے
میں ایک خیمے سے جھانکتا ہوں
اور اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں
مِرا محافظ ڈرا ہوا ہے
میں سوچتا ہوں یہ کیا ہوا ہے
مِرا محافظ ڈرا ہوا ہے
ہر اک سپاہی ہے چاک وچوبند
ہر ایک خطرے پہ مورچہ ہے
ہمیں کو مرنے کا ڈر نہیں ہے
ہمارا دشمن بھی جانتا ہے
مگر محافظ ڈرا ہوا ہے
عجیب مایوس زندگی ہے
کہ سال پورا گزر گیا ہے
جسے محافظ سمجھ رہا ہوں
حقیقتاً یہ بہت جدا ہے
اگرچہ دشمن نہیں ہے لیکن
یہ دشمنوں سے ملا ہوا ہے
کہاں کی اقوام متحد ہیں؟
یہ سب یہ کس کا کیا دھرا ہے
ہمارے اپنے گُرو کہاں ہیں
وہ چھ مہینوں کا کیا ہوا ہے
کسے محافظ سمجھ رہے ہیں
یہ کون غیروں سا لگ رہا ہے
ہمیں تو مالی ہیں اس چمن کے
ہمیں محافظ ہیں اس وطن کے
ہمارا کچھ بھی جدا نہیں ہے
فقط یہ افسر بِکا ہوا ہے
میں ایک قیدی ہوں اور مجھ سے
مِرا محافظ ڈرا ہوا ہے
عاصم سلیم
No comments:
Post a Comment