وہی رستے تھے وہی موسم تھا وہی سارے مکان پرانے تھے
لیکن اس کہنہ بستی میں، جو لوگ ملے انجانے تھے
مِرا رونق شہر میں جی نہ لگا، مجھے محفلیں راس نہیں آئیں
مِری آنکھوں میں تھی ریگ تپاں، مرے دل میں بسے ویرانے تھے
اک اجڑی ہوئی محفل میں گیا میں ڈھونڈنے اپنے پیاروں کو
کچھ بجھی ہوئی شمعیں تھیں وہاں، کچھ ٹوٹے ہوئے پیمانے تھے
بچپن کے مکاں کے چھت پر تھی، اک بیل گلابی پھولوں کی
کمروں کی زمیں پر بنے ہوئے، شطرنج کے جیسے خانے تھے
اب رہزن ہیں ہر رستے میں، اب ہر کوچہ اک مقتل ھے
اس شہر کو میں نے جب دیکھا، جب گلی گلی میخانے تھے
ماضی کے سنہرے لمحوں کو، میں بھول نہیں سکتا ہوں کبھی
تھی کیسی محبت لوگوں میں، کتنے روشن وہ زمانے تھے
میں آج فراست رہتا ہوں، شہرت کے بھکاری بونوں میں
کل شعرو ادب کے بڑے بڑے، لوگوں سے مرے یارانے تھے
فراست رضوی
No comments:
Post a Comment