Saturday 26 February 2022

مریض اٹھنے لگے ہیں کسی سہارے بغیر

 مریض اٹھنے لگے ہیں کسی سہارے بغیر

پکارتا ہے کوئی اس طرح پکارے بغیر

تِری رضا کے بنا ذائقہ بھی دیتا نہیں

یہ پیڑ پھل نہیں دیتا تِرے اشارے بغیر

اداسی ہم سے ملے تو اداسی بنتی ہے

بنے گا جانے اداسی کا کیا ہمارے بغیر

دِکھاؤ کوئی تو لڑکی بِنا محبت کے

بتاؤ کوئی تو دریا مجھے کنارے بغیر

سنا تو میرے چراغوں کا خون جلنے لگا

کوئی پہنچتا نہیں تجھ تلک ستارے بغیر

پھر اس کے واسطے میں نے انا کو مار دیا

وہ عشق کرتا رہا اژدھے کو مارے بغیر

ہمارا دل ہے مگر دلبری نہیں کوئی

ہمارے پاس ہیں آنکھیں مگر نظارے بغیر

دعا سلام بھی رکھنا ہمیں پڑی مہنگی

کسی کا عشق مکمل ہوا خسارے بغیر

کمال ہے کہ تم اوروں کی بات کرتے ہو 

میں اپنے آپ سے ملتا نہیں تمہارے بغیر

ہمارے راستے آخر جدا ہی ہونا تھے

ہم آگے چلتے رہے غلطیاں سدھارے بغیر

کئی طرح کے وہ لیتا ہے کام لہجے سے

بدن کی ٹہنیاں وہ کاٹتا ہے آرے بغیر


ندیم راجہ

No comments:

Post a Comment