بیاں کیا کیجیے سوز دروں کو داستانوں میں
نکل کے تیر کب آتے ہیں واپس پھر کمانوں میں
ہماری سوچ کے بادل ہیں اڑتے آسمانوں میں
کرے گی یاد یہ دنیا ہمیں آتے زمانوں میں
سبھی مل کر بچھڑ جائیں اگر گمنام ہو جائیں
مکیں پھر کس لئے بستے ہیں ان اونچے مکانوں میں
رہے وحشت زدہ کے ساتھ تو وحشت ملی ہر دم
وہ ہی وحشت رہی من میں سبھی موسم سہانوں میں
چرا کے خواب وہ میرے چلا تو یہ خیال آیا
قلم کی نوک سے لکھ دوں الم یہ سب لسانوں میں
جو سچ کہتے ہیں وہ ہی جاوداں رہتے ہیں عالم میں
چھپایا جا نہیں سکتا حقیقت کو فسانوں میں
زمیں سر سبز ہے فصلیں بھی کیسی لہلہاتی ہیں
امیر شہر نے خرمن جو بانٹا ہے کسانوں میں
وفا کے نام پر ہرگز حنا خاموش مت رہنا
کبھی وہ لوٹ آئیں گے تمہاری داستانوں میں
حنا امبرین طارق
No comments:
Post a Comment