کارنس پر پڑا ہوا برتن
دھوپ کیا ہے
یہ کس رنگ کی
اور کیسی ہوا کرتی ہے
میں نہیں جانتا
کیوں کہ میں تو، زمانے ہوئے
بس نمی جانتا ہوں
نمی
جو مجھے زنگ کرتی ہے
کرتی چلی جارہی ہے
مجھے تو فقط گَرد معلوم ہے
جو زمانوں سے مجھ پر پڑی جا رہی ہے
سنو
تم کسی دن مجھے ہنس کے دیکھو
اگر میں نہ چمکوں تو پھر بات کرنا
ذیشان حیدر نقوی
No comments:
Post a Comment