تُو مجھے آن ملے گا یہ یقیں تھا مجھ کو
تیری آمد کا سفر کتنا حسیں تھا مجھ کو
خیر ہو تیری لبوں پر یہ دعا تھی ہر دم
راہ میں آ ئے کبھی تجھ کو نہ کوئی بھی غم
تیری خوشیوں کو مقدم ہی رکھا ہے میں نے
تیری خاطر یہ کڑا وقت سہا ہے میں نے
رہ تری تکتے یہ دن رات گنے ہیں میں نے
دید کے شوق میں لمحات گنے ہیں میں نے
کتنی مشکل میں گزرتا رہا پل پل میرا
دل کہ تنہائی کے جنگل میں تھا بے کل میرا
چلہ کاٹا ہے تِری دید کی خاطر میں نے
روزے رکھے ہیں اسی عید کی خاطر میں نے
تیری یادیں گو سہارا تو رہی ہیں میرا
تیری یادیں متبادل تو نہیں ہیں تیرا
منتظر دید کی تھیں میری نگاہیں کب سے
تیری باہوں کو ترستی تھیں یہ باہیں کب سے
یاد ہے پہلی نظر جب تجھے دیکھا میں نے
روح تک اپنی اترتے ہوئے پایا میں نے
وہ بھی کیا وقت سحر تھا کہ تِری دید ہوئی
عید کا دن تو نہیں تھا پہ مِری عید ہوئی
ہاتھ پر ہاتھ رکھو اور کرو یہ وعدہ
اب نہ جاﺅ گے کبھی چھوڑ کے مجھ کو تنہا
منظور ثاقب
No comments:
Post a Comment