احترامِ صبا کیا جائے
سب دریچوں کو وا کیا جائے
کوئی شہرِ صبا سے آئے گا
فرش کو آئینہ کیا جائے
ساری نادانیاں تو اپنی ہیں
کیا کسی کا گِلہ کیا جائے
کیوں اسے بے وفا کیا جائے
مشورے ٹھیک ہیں زمانے کے
دل نہ مانے تو کیا کیا جائے
صرف حرفِ دعا نہیں کافی
دل کو صرفِ دعا کیا جائے
پھر ہوا کا مزاج برہم ہے
پھر کوئی مشورہ کیا جائے
بحث و تمحیص کر چکے ہم تم
اب کوئی فیصلہ کیا جائے
کچھ نہیں ہے تو اس مسافر کو
اب سپردِ خدا کیا جائے
ساری دنیا سے جیت آئے ہیں
اس قبیلے کا کیا کیا جائے
اس کی تصویر گھر میں کیا رکھنی
دل کو آراستہ کیا جائے
کون دل میں اتر کے دیکھتا ہے
اب گھروں کو بڑا کیا جائے
خال و خد ہی نہیں تو کیوں اظہر
آئینہ آئینہ کیا جائے
اظہر ادیب
No comments:
Post a Comment