Monday, 28 February 2022

امید کی کوئی چادر تو سامنے آئے

 امید کی کوئی چادر تو سامنے آئے

میں رک بھی جاؤں تِرا گھر تو سامنے آئے

میں راہِ عشق میں خود کو فنا بھی کر دوں گا

مِرے حبیب! وہ منظر تو سامنے آئے

ہمارے بازو کا دنیا کمال دیکھے گی

عدو کا کوئی بھی لشکر تو سامنے آئے

میں احترام سے دستار اس کے سر باندھوں

وہ فن شناس سخنور تو سامنے آئے

کروں گا عمر بھر اس پر میں پیار کی بارش

وہ خوش جمال سا پیکر تو سامنے آئے

سرِ نیاز جھکے گا خود اس کے قدموں میں

وہ لے کے ہاتھ میں خنجر تو سامنے آئے

میں ایک سنگ ہوں مجھ میں ہیں صورتیں پنہاں

مجھے تراشنے آذر تو سامنے آئے

فدائے عشق ہوں مرنے کا ڈر نہیں فردوس

مجھے ڈبونے سمندر تو سامنے آئے


فردوس گیاوی

No comments:

Post a Comment