Sunday, 27 February 2022

الوداع اے حسرتوں کے زرد موسم الوداع

 الوداع اے حسرتوں کے زرد موسم الوداع

دل کو جینا آ گیا ہے، دردِ پیہم الوداع

اب ہمارا قلب ہے امید کا روشن دیا

تیرگی افسردگی اے چشمِ پُر نم الوداع

وصل، فرقت، غم، خوشی سب عارضی جذبات ہیں

وقتِ رُخصت گُل کو ہے پیغامِ شبنم، الوداع

شادمانی کے نظاروں کے تعاقب میں ہیں ہم

اے خزاں کے دور کے بے رنگ البم الوداع

جہل کی دیوی یہاں سے بھاگ جا واپس نہ آ

ہو نہیں سکتا ہے تیرا میرا سنگم، الوداع

یار کے اصرار پر تو چھوڑنا ہی تھا تجھے

اے مِرے جذبات کے خونخوار ضیغم الوداع

جب سے عامر رکھ دئیے سپنوں کی دنیا میں قدم

تب سے کہتے ہیں جہاں کے دام و درہم الوداع


عامر اظہر خان

No comments:

Post a Comment