دستِ نادیدہ گلو گیر تو ہے
صورتِ حال یہ گمبھیر تو ہے
شور حالات کی تصویر تو ہے
ہُو کا عالم بھی ہمہ گیر تو ہے
جانے کب اترے کمر میں خنجر
مجھ سے اک شخص بغلگیر تو ہے
زندگی، موت نہیں ہے لیکن
زندگی، موت کی تشہیر تو یے
لب ہیں خاموش تو جھنکار سُنا
دست و پا میں ترے زنجیر تو ہے
دور تک صبح کے آثار نہیں
ہر طرف نالۂ شبگیر تو ہے
وصل ہے لذتِ دیدار کا خبط
ہجر میں صورتِ تعمیر تو ہے
لکھ نہیں سکتا غلط بات کبھی
مجھ کو پاسِ فنِ تحریر تو ہے
میری آنکھیں نہ جسے دیکھ سکیں
تو اُسی خواب کی تعبیر تو ہے
موت سے زیست بغلگیر ہوئی
صورتِ حال یہ گمبھیر تو ہے
ورنہ ویران پڑی رہتی سڑک
رونقِ راستہ، رہگیر تو ہے
اتنی مایوس نہ ہو خواہشِ مرگ
عشق اس کام میں اکسیر تو ہے
حالتِ مرگ میں جینے کے لیے
چشمِ بےخواب میں تعبیر تو ہے
کون بنتا ہے ہدف، دیکھتے ہیں
اس کے ترکش میں ابھی تیر تو ہے
کینوس تک تو اُسے لے آیا
یہ میری کوششِ تسخیر تو ہے
آ گیا نصف ملاقات کا لطف
تُو نہیں ہے، تِری تحریر تو ہے
شہر ہونے میں کوئی شک ہے ابھی
جو ہے قاتل، معِ نخچیر تو ہے
دیکھ کر مجھ کو خزاں کہتی ہے
ساتھ میرے کوئی دلگیر تو ہے
راغب تحسین
No comments:
Post a Comment