Saturday, 26 February 2022

اس کا بدن بھی چاہئے اور دل بھی چاہئے

 اس کا بدن بھی چاہئے اور دل بھی چاہیۓ

سرخیٔ لب بھی گال کا وہ تل بھی چاہیۓ

یہ کاروبار شوق ہے، بے گار تو نہیں

اس کاروبارِ شوق کا حاصل بھی چاہیۓ

پانی اور آگ ایک جگہ چاہئیں ہمیں

جو شاخ گل بدست ہو قاتل بھی چاہیۓ

سب کو خبر تو ہو کہ وہ میرا ہے بس مِرا

پہلو میں یار بر سرِ محفل بھی چاہیۓ

پا کر چراغ دل کی ہوس اور بڑھ گئی

موصوف کو اب اک مہ کامل بھی چاہیۓ

یوں بے کنار آرزوؤں سے وصول کیا

خواہش کو ایک سمت بھی ساحل بھی چاہیۓ

ژولیدہ مو و چاک گریباں سب اہل دل

کوئی تو اس قبیلے میں عاقل بھی چاہیۓ

اپنی الگ شناخت بھی عمران ہو ضرور

وہ شخص اپنی زیست میں شامل بھی چاہیۓ


عمران الحق

No comments:

Post a Comment