Monday 28 February 2022

کوئی نظم کیسے کہیں

 معذرت

کوئی نظم کیسے کہیں کہ ہم

نہ چراغ ہیں

نہ مثال حرف گلاب ہیں

نہ خیال ہیں

نہ کسی کی آنکھ کا خواب ہیں

کسی گم شدہ سی وفاؤں کی

کسی شام میں

جو بچھڑ گئے

تو بچھڑنے والوں کی یاد میں

کہیں ریت ہیں

کہیں اشک غم کا غبار ہیں

وہ جو دشت

ہجر کا ہے کہیں

اسی دشت شام جدائی کے

یہ جو داغ ہیں

تِری یاد کے

تِرے بعد کے

کوئی نظم کیسے کہیں کہ ہم

نہ چراغ ہیں

نہ مثال حرف گلاب ہیں

نہ خیال ہیں

نہ کسی کی آنکھ کا خواب ہیں

یہ جو شہر ہے

تو یہ شہر بھی

صف دشمناں سے ملا ہوا

یہ جو لوگ ہیں

تو یہ لوگ بھی

کہاں جانتے ہیں کہ کیا ہوا

کوئی نظم کیسے کہیں

کہ ہم

یہ فضا ہی ایسی نہیں رہی

جو چراغ کوئی جلائیں ہم

تو ہوا ہی ایسی

نہیں رہی

تہیٔ فکر ایسے ہوئے ہیں ہم

تِرے خال و خد کا بیاں بھی اب

نہ ہمارے دست ہنر میں تھا

نہ ہمارے دست ہنر میں ہے


منور جمیل قریشی

No comments:

Post a Comment