معذرت
کوئی نظم کیسے کہیں کہ ہم
نہ چراغ ہیں
نہ مثال حرف گلاب ہیں
نہ خیال ہیں
نہ کسی کی آنکھ کا خواب ہیں
کسی گم شدہ سی وفاؤں کی
کسی شام میں
جو بچھڑ گئے
تو بچھڑنے والوں کی یاد میں
کہیں ریت ہیں
کہیں اشک غم کا غبار ہیں
وہ جو دشت
ہجر کا ہے کہیں
اسی دشت شام جدائی کے
یہ جو داغ ہیں
تِری یاد کے
تِرے بعد کے
کوئی نظم کیسے کہیں کہ ہم
نہ چراغ ہیں
نہ مثال حرف گلاب ہیں
نہ خیال ہیں
نہ کسی کی آنکھ کا خواب ہیں
یہ جو شہر ہے
تو یہ شہر بھی
صف دشمناں سے ملا ہوا
یہ جو لوگ ہیں
تو یہ لوگ بھی
کہاں جانتے ہیں کہ کیا ہوا
کوئی نظم کیسے کہیں
کہ ہم
یہ فضا ہی ایسی نہیں رہی
جو چراغ کوئی جلائیں ہم
تو ہوا ہی ایسی
نہیں رہی
تہیٔ فکر ایسے ہوئے ہیں ہم
تِرے خال و خد کا بیاں بھی اب
نہ ہمارے دست ہنر میں تھا
نہ ہمارے دست ہنر میں ہے
منور جمیل قریشی
No comments:
Post a Comment