دوسری سرگوشی
دیکھ
مجھے لمبے وعدوں سے خوف آتا ہے
لمبے وعدے دور افتادہ خوابوں کو
کُمہلا دیتے ہیں
بھید بھرے سنسار میں دھوپ کی پور
ہمارے جسموں کے مولودہ
حبس کو چھو کے گرمی اور چمک سے بھر جاتی ہے
یوں لگتا ہے مٹی کے ہنگام میں
جیون اپنے آپ سے تھکا ہُوا ہے
دیکھ زمیں کا محور ویسے تو
چنگاری سے خالی ہے لیکن
کون اس مٹی کے سینے میں تڑتڑ اگنی روک سکا ہے
کون اس درد کے سیل میں بل کھاتے
وعدوں سے کٹ کے جی پایا ہے
دیکھ
ہمارے آگے یہ جو
لہریں لیتے سالوں کے رنگیں پردے ہیں
پھٹ جائیں گے
بوجھل بوجھل دبے ہوئے لوگوں میں
بے تابی کی سرخ لکیریں مٹ جائیں گی
یہ جو منظر نامے اور آنکھوں کے
بیچ میں اک دیوار ہے
گِر جائے گی
گھائل خلقت
اک دوجے کے آئینوں میں کتنا دیکھے
لمس کا جادو
ویرانی کے یُگ سے کیسے آنکھ ملائے
ہونے کی تاخیر کو لے کے نقش ادھورے رہ جاتے ہیں
سانجھ سمے سے روشن رستہ دھیرے دھیرے
چکردار ہوا کے گھیر میں گھِر جاتا ہے
دیکھ
مجھے لمبے وعدوں سے خوف آتا ہے
فرخ یار
No comments:
Post a Comment