معذور ہے غزل کا جو پیکر ہے، ہائے ہائے
مطلعے کے واسطے کوئی منتر ہے ہائے ہائے
دریا کے اضطراب کو میں مانتا ہوں دوست
لیکن جو میری روح کے اندر ہے، ہائے ہائے
مجھ سے تو کم سے کم یہ حماقت بعید تھی
اس پر گمانِ موم جو پتھر ہے، ہائے ہائے
ان کے زہے نصیب کہ جن مطربان کو
تجھ سا لذیذ شخص میسر ہے، ہائے ہائے
کیوں کر علیؑ نہ سوئے مقدّس ترین نیند
سونے کو جب رسولؐ کا بستر ہے ، ہائے ہائے
خوابوں کی ہر شکست کی باعث ہیں کروٹیں
سو ہجرِ ماورا بھی مِرے سر ہے، ہائے ہائے
خوش ہوں وہاں میں اپنی سفارش کا سوچ کر
مجنوں جہاں قطار میں لگ کر ہے، ہائے ہائے
یاران! اک طرف ہیں وہ گیسوئے پُر شکن
اور اک طرف ہمارا مقدّر ہے، ہائے ہائے
مجھ سے بچھڑ کے تو تو بہت بد چلن ہوئی
تیرا فلاں کے پاس بھی نمبر ہے، ہائے ہائے
جب سے پڑھی ہے میر تقی میر کی غزل
تب سے مِری زباں پے مکرر ہے، ہائے ہائے
کہتی تھی سارے لڑکے ہی گاؤں کے خوب ہیں
لیکن فلاں گلی کا جو حیدر ہے، ہائے ہائے
حیدر عباس
No comments:
Post a Comment