نسلِ نو کے دانشور
مِرے کپڑوں کو کیڑے کھا گئے
تو میں نے یہ سوچا
مِرے ننگے بدن کا بھی یہی انجام ہونا ہے
مگر یہ جان کر میں کتنا خوش ہوں کتنا آسودہ
کہ میری روح میرا ذہن
اور افکار و احساسات ہیں
محفوظ کیڑوں سے
مجھے ان کا خیال آتا ہے
جن کی روح کو اور ذہن کو
چاٹا ہے کیڑوں نے
چھپانا چاہتے ہیں جو
لباس فاخرہ میں ان گنت کیڑے
دبانا چاہتے ہیں
عطر کی خوشبو سے جو باطن کی بدبو میں
جنہیں کیڑوں نے کیڑا کر دیا ہے
لیکن
نظر آتے ہیں جو اب بھی
ہمیں انسان کی صورت
کہ ہیں کچھ اور دن
ان کے لباس ان کے بدن
محفوظ کیڑوں سے
وہ دن نزدیک ہے جب ان پر
زہریلی دوا چھڑکیں گے
نسل نو کے دانشور
احسن علی
علی احسن
No comments:
Post a Comment