Sunday 27 February 2022

دیوں سے وعدے وہ کر رہی تھی عجیب رت تھی

دِیوں سے وعدے وہ کر رہی تھی عجیب رُت تھی

ہوا چراغوں سے ڈر رہی تھی عجیب رت تھی

بڑی حویلی کے گیٹ آگے دریدہ دامن

غریب لڑکی جو مر رہی تھی عجیب رت تھی

ٹھٹھرتی شب میں وداعی سیٹی کی گُونج سن کر

یہ آنکھ پانی سے بھر رہی تھی عجیب رت تھی

ضعیف ماں کے لیے تھا مشکل کہ گھر سے جاتی

اتار گٹھری وہ دھر رہی تھی، عجیب رت تھی

خزاں کے موسم میں شام بھی تھی اداس بابر

وہ بن کے پت جھڑ بکھر رہی تھی عجیب رت تھی


احمد سجاد بابر

No comments:

Post a Comment