اک خطا سرزد ہوئی تھی پر خدا خاموش ہے
اس کی رحمت مجھ پہ ہے سو ہر سزا خاموش ہے
عشق کی حالت میں تجھ کو اب خدا بھی کہہ دیا
یہ سبھی کچھ دیکھ کر بھی نا خدا خاموش ہے
تُو اگر ہو سامنے کوئی صدا آتی نہیں
میرے تو الفاظ بہرے التجا خاموش ہے
زندگی برزخ نما ہے اور آنکھیں خشک ہیں
اور میرے آنسوؤں کی بھی ردا خاموش ہے
میرے ماتھے سے پسینہ پھوٹے میری موت کا
خوف سے دیکھا ہے چہرا آئینہ خاموش ہے
ہم تمہاری آنکھوں ہی کے نشے میں مصروف ہیں
تب سے آئس چرس افیوں کا نشہ خاموش ہے
سنبل چودھری
No comments:
Post a Comment