Saturday 26 February 2022

اک خطا سرزد ہوئی تھی پر خدا خاموش ہے

 اک خطا سرزد ہوئی تھی پر خدا خاموش ہے

اس کی رحمت مجھ پہ ہے سو ہر سزا خاموش ہے

عشق کی حالت میں تجھ کو اب خدا بھی کہہ دیا

یہ سبھی کچھ دیکھ کر بھی نا خدا خاموش ہے

تُو اگر ہو سامنے کوئی صدا آتی نہیں

میرے تو الفاظ بہرے التجا خاموش ہے

زندگی برزخ نما ہے اور آنکھیں خشک ہیں

اور میرے آنسوؤں کی بھی ردا خاموش ہے

میرے ماتھے سے پسینہ پھوٹے میری موت کا

خوف سے دیکھا ہے چہرا آئینہ خاموش ہے

ہم تمہاری آنکھوں ہی کے نشے میں مصروف ہیں

تب سے آئس چرس افیوں کا نشہ خاموش ہے


سنبل چودھری

No comments:

Post a Comment