کہا گیا ہے سنا گیا ہے؛ کوئی نہ بولے
زباں درازوں کو مشورہ ہے کوئی نہ بولے
ہر ایک لب پر سوال کرتی خموشیاں ہیں
بس ایک ڈر ہے جو بولتا ہے کوئی نہ بولے
عجیب گونگی ہوا چلی ہے کہ شہر بھر میں
جسے بھی ملتا ہوں کہہ رہا ہے کوئی نہ بولے
بنام مذہب،۔ بنام عترت،۔ بنام حکمت
یہی بھلا ہے، یہی بجا ہے، کوئی نہ بولے
اب ایسے عالم میں بات کرنا ہے جیسے مرنا
سو سیدھا سادہ سا مشورہ ہے کوئی نہ بولے
کھلا ہوا ہے کہیں پہ دروازہ گفتگو کا
اور اس کے اوپر لکھا ہوا ہے کوئی نہ بولے
خموشیوں کی زباں میں کہتے چلو جو قصہ
تمہیں پتا ہے، مجھے پتا ہے کوئی نہ بولے
کٹی زبانوں سے پوچھتے ہیں وہ عدل پرور
تمہی بتاؤ کسے کہا ہے؛ کوئی نہ بولے
یہ چپ ہمارے نصاب کا لازمی سبق ہے
ازل سے ہم نے یہی پڑھا ہے کوئی نہ بولے
عجیب لکنت پسند حاکم سے واسطہ ہے
جو چاہتا ہے جو سوچتا ہے کوئی نہ بولے
احمد فرہاد
No comments:
Post a Comment