Sunday, 27 February 2022

یوں خشت و گل و سنگ کے انبار لگا کر

یوں خشت و گل و سنگ کے انبار لگا کر

کب شہر بنا کرتے ہیں معمار لگا کر

اک وہ تھے کہ جو میر بنے عشق کے صدقے

اک ہم، کہ خجل، عشق کا آزار لگا کر

ہم جیسے کئی اہلِ ہنر جی لیے اے دوست

ٹوٹے ہوئے خوابوں کا یہ بازار لگا کر

لوگ اور بھی اک دوسرے سے دُور ہوئے ہیں

یوں شہر میں دیوار سے دیوار لگا کر

اک عمر کے بعد آج ملا کانچ سا وہ شخص

چھوڑا ہے جسے وقت نے زنگار لگا کر​


افتخار مغل​

No comments:

Post a Comment