آنگن آنگن، تنہا تنہا، الجھے الجھے لوگ
بھوک، غریبی، بیماری سے پل پل لڑتے لوگ
سب کی اپنی ایک کہانی، اپنے اپنے خواب
بنگلے، چھپر، سڑکوں، گلیوں، جیتے مرتے لوگ
دنیا ساری جنگل بستی، حیواں سے انسان
ریوڑ ریوڑ، جھنڈوں جھنڈوں، سمٹے سمٹے لوگ
دن کے شور میں سننا مشکل، کان پڑی آواز
رات کی خاموشی سے ڈرتے سہمے سہمے لوگ
جن کا کاروبار تھا خالص پیار کے بدلے پیار
کیا جانے کس دیس گئے وہ سیدھے سچے لوگ
نِیم کے کڑوے دور میں مجھ کو اکثر آئے یاد
گجھیاں اور سویوں جیسے میٹھے میٹھے لوگ
دیکھ رہے ہیں گھر گھر اٹھتی نفرت کی دیوار
پیار، محبت، اپنے پن کو ترسے ترسے لوگ
دولت کے میزان پہ تلتے رشتے، ناطے ، دوست
اپنے میں کے خول میں لپٹے، بکھرے بکھرے لوگ
حنا رضوی حیدر
No comments:
Post a Comment