بے خبر کیسے ہو رہے ہو تم
جاگتے ہو کہ سو رہے ہو تم
کس لیے میرے ناخدا بن کر
میری کشتی ڈبو رہے ہو تم
میری قسمت کو میٹ کر خود ہی
میری قسمت پہ رو رہے ہو تم
مجھ سے میرا ہی تذکرہ کر کے
دل میں کانٹے چبھو رہے ہو تم
خون کر کے مِری تمنا کا
داغ دامن کے دھو رہے ہو تم
میری ہر بات کی نفی کر کے
اپنی ہر بات کھو رہے ہو تم
مجھ کو بدنام کر کے دنیا میں
خود بھی بدنام ہو رہے ہو تم
اے گہر کیوں خوشی کے دامن میں
میرے غم کو سمو رہے ہو تم
گہر خیرآبادی
No comments:
Post a Comment