کیمیا کرتا ہے یا راکھ بنا دیتا ہے
دیکھنا ہے کہ تِرا غم ہمیں کیا دیتا ہے
کچھ وسیلے بھی ضروری ہیں رواداری کو
ورنہ یہ سب کو پتا ہے کہ خدا دیتا ہے
جانتا ہوں کہ محبت نے رلایا ہے اسے
پھر بھی وہ شخص محبت کو دعا دیتا ہے
اس سے ثابت ہے خدا بھی ہے وہ بندوں کا خدا
جب اسے یاد کیا جائے بھلا دیتا ہے
ہم محبت کو نصیحت کی طرح لیتے ہیں
ہجر آداب بھلانے پہ سزا دیتا ہے
میں تو اس خواب پہ قربان حقائق کردوں
جس میں وہ بوسہ مِرے گال پہ آ دیتا ہے
شکریہ رزقِ سخن بانٹنے والے مولا
جب بھی تو دیتا ہے دنیا سے جدا دیتا ہے
میں سخن بانٹنے آیا ہوں تبھی زندہ ہوں
ورنہ راقب یہ زمانہ مجھے کیا دیتا ہے
امیر عباس راقب
No comments:
Post a Comment