Sunday, 27 February 2022

جس کو سمجھے تھے تونگر وہ گداگر نکلا

جس کو سمجھے تھے تونگر وہ گداگر نکلا

ظرف میں کاسۂ درویش سمندر نکلا

کبھی درویش کے تکیہ میں بھی آ کر دیکھو

تنگ دستی میں بھی آرام میسر نکلا

مشکلیں آتی ہیں آنے دو، گزر جائیں گی

لوگ یہ دیکھیں کہ کمزور دلاور نکلا

جب گرفتوں سے بھی آگے ہو پہنچ مٹھی کی

تب لگے گا کہ سمندر میں شناور نکلا

کوئی موہوم سا چہرہ جو بلاتا ہے ہمیں

بادلوں کی طرح شکلیں وہ بدل کر نکلا

دل عجب چیز ہے کس مٹی میں جا کر بوئیں

جڑ یوں پکڑے کہ لگے پیڑ تناور نکلا

لاش قاتل نے کھلی پھینک دی چوراہے پر

دیکھنے والا کوئی گھر سے نہ باہر نکلا

دیکھنے میں تو دھنک چند ہی لمحے تھی انیس

سات رنگوں کا مگر دیدنی منظر نکلا


انیس انصاری

No comments:

Post a Comment