گلدان
ٹھٹھرتی شب کے زینے میں
دسمبر کے مہینے میں
اچانک تھرتھراہٹ فون کی مجھ کو سنائی دی
وہ پہلی بار دھڑکن قلب کی بڑھتی دکھائی دی
مِرے چہرے پہ زردی جسم پر تھی کپکپی طاری
کہ سردی میں اچانک یوں پسینے ہو گئے جاری
موبائل کانپتے ہاتھوں سے تب میں نے نکالا تھا
بڑی مشکل سے خود کی غیر حالت کو سنبھالا تھا
مِری پہلی محبت نے مجھے پیغام بھیجا تھا
حسیں پھولوں کا اک گل دان میرے نام بھیجا تھا
تھا اس کا دوسرا میسج سنائیں آپ کیسے ہیں
بدل ڈالا ہے اپنا بچپنا یا اب بھی ویسے ہیں
جواباً یہ کہا کہ بچپنے میں کون رہتا ہے
زمانے کی سبھی یہ تلخیاں ہر کوئی سہتا ہے
ملاقاتوں کا اس دن سے ہوا تھا سلسلہ جاری
ہمارا گفتگو میں دن گزرتا اور شب ساری
مجھے بچپن کی ساری وارداتیں وہ سناتی تھی
وہ اپنی ہر سہیلی کی سبھی باتیں بتاتی تھی
مِرے کپڑوں کا جوڑا جیب خرچی سے بنایا تھا
مجھے اس نے، اسے میں نے سدا دل میں بسایا تھا
ملاقاتیں رہی جاری ہماری سات سالوں تک
رسائی اس نے پائی تھی مِرے خوابوں خیالوں تک
اچانک پھر دسمبر میں سلام آخری بھیجا
نجانے کس وجہ سے وہ پیام آخری بھیجا
مِرے تحفے تحائف اب تلک اس نے سنبھالے ہیں
لبوں پر پھر نجانے کیوں لگائے اس نے تالے ہیں
دسمبر کی وہ پہلی شب ہمارے نام لکھ دی ہے
کہ میسج آخری میں زندگی کی شام لکھ دی ہے
تجمل عباس جارب
No comments:
Post a Comment