اپنی آواز خود بنو
لمبی مسافتوں نے یہ بھید کھولے ہیں
لفظ خود بنے ہیں
آواز بھی خود بننا پڑے گا
کچھ کہنا ہے تو
ہمراز بھی خود بننا پڑے گا
یہ گیت تیرے اپنے ہیں تو
انکا ساز بھی خود بننا پڑے گا
کوئی لہجہ چبھے یا کہیں درد اُٹھے
مرہم کی آس مت رکھنا
کسی اپنے کی پیاس مت رکھنا
یہ تیرے زخم ہیں تو تجھے
اپنا دم ساز خود بننا پڑے گا
لمبی مسافتوں نے یہ بھید کھولے ہیں کہ
ایسے وقت بھی آتے ہیں
جب سنگ ہاتھ میں اُٹھائے اپنے
لفظوں کے نشتر لگاتے ہوئے
تجھے مسکرانے پہ مجبور کریں گے
تجھے آنسوؤں کو چھپانا پڑے گا
تجھے مسکرانا پڑے گا
لمبی مسافتوں نے یہ بھید کھولے ہیں
کوئی یقین نہیں کرے گا
شرمندگی ہو گی گلہ کرنے سے
بس تم خود کو خود تک سمیٹ لو
اپنا ہمراز اپنا دمساز خود بنو
بس تم اپنی آواز خود بنو
سمیہ سعید
No comments:
Post a Comment