میں بھی اپنے آپ میں گم تھا تم اپنی آواز میں چُپ
اک تارا خاموش تھا صاحب سُر اپنے ہی ساز میں چپ
دونوں کی تنہائی میں بھی ایک عجب پہنائی تھی
میں اپنے انجام پہ ششدر تم اپنے آغاز میں چپ
ایک ہجوم تھا میرے اندر تم طوفانی بارش تھے
میں اپنے انداز میں چپ تھا تم اپنے انداز میں چپ
شوخ ادا تم چنچل سے تھے الہڑ سے متوالے سے تھے
میرا دھرم فقیری میں تھا میں طبعِ ناساز میں چپ
تمہیں چُھو لینے کی خاطر میں کتنا بدنام ہوا تھا
کتنے راز کھلے تھے میرے تم تھے اپنے راز میں چپ
میرے ناز اٹھانے والے سارے لمحے بیت گئے
میں اپنے کہرام کا خوگر تم اپنے ہی ناز میں چپ
تم سے بچھڑا تو یہ جیون موت کا رقص ہی لگتا تھا
جان نہیں تھی میرے اندر میں تھا چشمِ باز میں چپ
احمد منیب
No comments:
Post a Comment