الفت کا جس کو روگ لگا وہ بچا نہیں
یہ درد ہے وہ درد کہ جس کی دوا نہیں
مہر و وفا نہیں ہیں کہ صبر و رضا نہیں
ہم افقروں کے کیسۂ خاکی میں کیا نہیں
بیمار کے نہ زخم پہ ظالم نمک چھڑک
نرگس سے چھیڑ اچھی یہ بادِ صبا نہیں
پھر کہہ کے کیا پکاروں تجھے جان من اگر
دلبر نہیں،۔ نگار نہیں،۔ دلربا نہیں
نادان دل کو اس سے وفا کی امید ہے
جو بے وفا کسی کا ابھی تک ہوا نہیں
بے لوث عشق و حسن پرستی کے ماسوا
واللہ، میرا اور کوئی مُدعا نہیں
دیکھا دل غریب کو ناگن سی ڈس گئی
لہرا رہی ہے زلف، یہ کالی گھٹا نہیں
بھولے سے ہاں بھی منہ سے نکلتا کبھی کبھی
میرے ہر اک سوال پہ یہ تا کجا نہیں
دکھ درد میں ہمیشہ جو سب کا شریک ہے
اس کے سوا کسی کا مجھے آسرا نہیں
آساں نہیں مشاہدۂ شاہدِ جمال
نظروں سے کھلنے والا یہ بندِ قبا نہیں
پہلے پہل جو دل کو لگی تھی نظر کی چوٹ
بھولا غریب آج بھی وہ حادثہ نہیں
ماہر نہ دل کہو اسے اک لخت سنگ ہے
ہر دم غم حبیب میں جو مبتلا نہیں
ماہر بلگرامی
No comments:
Post a Comment