پھول سے زخموں کا انبار سنبھالے ہوئے ہیں
غم کی پونجی مرے اشعار سنبھالے ہوئے ہیں
ہم سے پوچھو نہ شب و روز کا عالم سوچو
کیسے دھڑکن کی یہ رفتار سنبھالے ہوئے ہیں
گھر بھی بازار کی مانند رکھے ہیں اپنے
وہ جو بازار کا معیار سنبھالے ہوئے ہیں
ایک ناول ہیں کبھی پڑھ تو ہمیں فرصت میں
تن تنہا کئی کردار سنبھالے ہوئے ہیں
ہم محبت کے تلے کانپ رہے ہیں ایسے
جیسے درکی ہوئی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں
زخم لے کر یہ سبھی اپنے میں جاتا بھی کہاں
یوں بھی اجلاس گناہگار سنبھالے ہوئے ہیں
آلوک مشرا
No comments:
Post a Comment