Monday, 28 February 2022

پھول سے زخموں کا انبار سنبھالے ہوئے ہیں

 پھول سے زخموں کا انبار سنبھالے ہوئے ہیں

غم کی پونجی مرے اشعار سنبھالے ہوئے ہیں

ہم سے پوچھو نہ شب و روز کا عالم سوچو

کیسے دھڑکن کی یہ رفتار سنبھالے ہوئے ہیں

گھر بھی بازار کی مانند رکھے ہیں اپنے

وہ جو بازار کا معیار سنبھالے ہوئے ہیں

ایک ناول ہیں کبھی پڑھ تو ہمیں فرصت میں

تن تنہا کئی کردار سنبھالے ہوئے ہیں

ہم محبت کے تلے کانپ رہے ہیں ایسے

جیسے درکی ہوئی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں

زخم لے کر یہ سبھی اپنے میں جاتا بھی کہاں

یوں بھی اجلاس گناہگار سنبھالے ہوئے ہیں


آلوک مشرا

No comments:

Post a Comment