اپنوں نے ہمیں لُوٹا ہے، کس سے گلہ کریں
آ، روشنی کے شہر کا ماتم بپا کریں
باتیں تو کر رہے ہیں، مگر سوچتے ہیں کب
مخلص نہیں ہے کوئی اسے نوچتے ہیں سب
کس نے لگائی آگ، کیا کس نے قتلِ عام
سب دیکھ کر انجاں ہیں اُسے روکتے ہیں کب
دل خون رو رہا ہے، کیا تجھ سے وفا کریں
آ، روشنی کے شہر کا ماتم بپا کریں۔
بھتے میں دے دیا ہے حکومت نے شہر کو
سوتیلا کر دیا ہے ریاست نے شہر کو
مقتل بنا دیا ہے غلاظت نے شہر کو
کچرا ہی کر دیا ہے سیاست نے شہر کو
رحمت بنی زحمت، بتا اب کیا دعا کریں
آ، روشنی کے شہر کا ماتم بپا کریں
گٹریں اُبل رہی، کہیں پانی کھڑا ہوا
ہر چوک، ہر گلی سے تعفن ہے اٹھ رہا
بچہ مِرے غریب کا، ہے کون پوچھتا
ہے حاکمِ شہر سے فقط اتنی التجا
للہ، اب تو تھوڑا سا خوفِ خدا کریں
آ، روشنی کے شہر کا ماتم بپا کریں
شہزاد سمانا
No comments:
Post a Comment