Monday, 28 February 2022

شیشے کے بدن میں رہتا ہوں

 ہل ٹیڑھا ہے


شیشے کے بدن میں رہتا ہوں

میں آج ہوں میرے آگے پیچھے کل ہیں

پھر بھی تن تنہا ہوں

حاملہ مٹی کے اوپر سینے کے بل لیٹا ہوں

سر اور پیر تصادم میں ہیں

تاریکی کے پیچھے بھاگ رہا ہوں

کچی موت کے بعد جوں ہی زندہ ہوتا ہوں

میرے سرہانے نئی نویلی دلہن دھوپ دہک اٹھتی ہے

سر اور پیر تصادم میں حق زوجیت ماتھے پر

صبح سویرے کلمہ پڑھ کے نہانا

فصل کے پک جانے تک کھیت کو پانی دیتے جانا

میں نے یہی سنا ہے

حاملہ مٹی کے اوپر سینے کے بل لیٹا ہوں

بیل ہوں پتھریلی کھیتی میں

ہانپ گیا ہوں ہل ٹیڑھا ہے

خصی بیلوں کی سب جوڑیاں

پتھریلے کھیتوں میں ہانپ چکی ہیں

بیج بکھیرنے کے آسن بھی بدل چکے ہیں

جانے پیدائش کا لمحہ کب آئے گا

مجبوری کے پیچھے سرپٹ بھاگ رہا ہوں

پھیکے موسموں اور وقتوں کی

عمر بڑی ہے ہانپ گیا ہوں


عباس اطہر

No comments:

Post a Comment