ہل ٹیڑھا ہے
شیشے کے بدن میں رہتا ہوں
میں آج ہوں میرے آگے پیچھے کل ہیں
پھر بھی تن تنہا ہوں
حاملہ مٹی کے اوپر سینے کے بل لیٹا ہوں
سر اور پیر تصادم میں ہیں
تاریکی کے پیچھے بھاگ رہا ہوں
کچی موت کے بعد جوں ہی زندہ ہوتا ہوں
میرے سرہانے نئی نویلی دلہن دھوپ دہک اٹھتی ہے
سر اور پیر تصادم میں حق زوجیت ماتھے پر
صبح سویرے کلمہ پڑھ کے نہانا
فصل کے پک جانے تک کھیت کو پانی دیتے جانا
میں نے یہی سنا ہے
حاملہ مٹی کے اوپر سینے کے بل لیٹا ہوں
بیل ہوں پتھریلی کھیتی میں
ہانپ گیا ہوں ہل ٹیڑھا ہے
خصی بیلوں کی سب جوڑیاں
پتھریلے کھیتوں میں ہانپ چکی ہیں
بیج بکھیرنے کے آسن بھی بدل چکے ہیں
جانے پیدائش کا لمحہ کب آئے گا
مجبوری کے پیچھے سرپٹ بھاگ رہا ہوں
پھیکے موسموں اور وقتوں کی
عمر بڑی ہے ہانپ گیا ہوں
عباس اطہر
No comments:
Post a Comment