جس سے ہر پل ہر سو میری بات رہی
اس کی خوشبو ہر دم میرے ساتھ رہی
دل کا موسم جیٹھ مہینے جیسا تھا
آنکھوں میں کیوں ساون سی برسات رہی
دن بھر ایک مشقت میں نے کاٹی تھی
پھر بھی جانے کیوں بے چین سی رات رہی
خود کو میں نے منفی خود سے کر ڈالا
جس کو اندر پالا تیری ذات رہی
ہر اک بازی دنیا والے جیت گئے
جب جب بھی میں کھیلا بازی مات رہی
میرے گھر میں اس دن بھی تو فاقہ تھا
دن بھر بٹتی شہر میں جب خیرات رہی
سونے جیسا رُوپ تھا جس شہزادی کا
اک دن وہ بھی سُوت تھی بیٹھی کات رہی
زاہد! میرے سچ کو سب نے جھوٹ کہا
شہر میں جھوٹی خبروں کی بہتات رہی
محبوب زاہد
No comments:
Post a Comment