Sunday 27 February 2022

مستقل ہاتھ ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

 مستقل ہاتھ ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

میں نئے دوست بناتے ہوئے تھک جاتا ہوں

ابر آوارہ ہوں میں کوئی سمندر تو نہیں

پیاس صحرا کی بجھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

مالک کون و مکاں اب تو رہائی دے دے

جسم کا بوجھ اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

تو مِرے راز بتاتے ہوئے تھکتا ہی نہیں

میں تِرے راز چھپاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

میرے قدموں سے لپٹ جاتی ہے ماں کی ممتا

میں کہیں گاؤں سے جاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

جانے کب جا کے مِرا عشق مکمل ہو گا

رقص کرتے ہوئے گاتے ہوئے تھک جاتا ہوں


ہاشم رضا جلالپوری

No comments:

Post a Comment