Sunday, 27 February 2022

ساحرہ ٹوٹ جائے گا حزن کا دیوتا

 ساحرہ! ٹوٹ جائے گا

حُزن کا دیوتا

نارسائی کے قصوں میں زندہ ہے اب تک

تِری آغوش کی حدت سے آشنا نہیں

تِرے آنگن کے پیڑوں کی مانند

جو تِری دھوپ کی چاہت میں بوڑھے ہوئے

پشت بھلا دی تِری دیواروں نے

اور اپنے سائے سمیٹ لیے

تِرے آنچل کی نرم خواب ناکی سے

سیہ راتوں نے وسوسے بُنے

تُند ہواؤں نے بادبان تِرے بستر سے

لا محدود نشیبی کھیتوں میں

تِرے ذائقے سے گندم جواں ہوئی

ترے پہلو سے یوں پھوٹا

مہک آلود نمی کا ہیجان

کہ اندلسی سیبوں میں رس پڑا

تِری مٹی نے وہ کوزے جَنے ساحرہ

مِری نیندیں ہلکان ہوئیں جن میں

خواب تِری مُٹھی میں جل گئے

وہ شور اُگلا تِری خامشی نے

میں کہ ضبطِ ثقیل کا پیکر

اپنے شیرازوں میں کھو گیا

تیرگی بند کواڑوں میں سر پٹختی رہی

گلبدن

لمس بھر تجھے چومنے کی تگ و دو میں

زرد الجھن مِرے ہونٹوں پر

شکستہ جُھریوں میں سسکتی رہی

حبس آنکھوں میں جم گیا

جیسے دلاسہ اداس جسموں پر

ساحرہ

میں وہ کلیسا ہوں جس میں دفن ہے

تِری پرستش کی آگ، تِرے صحیفوں کی چاپ

تِری وحشت کی لَو

اے مِری زرد فام

رنج تمہارا نہیں

رنج ہمارا ہے

کہ جیون اک ملالِ پیہم ہے

تِرا سینہ کند خنجر سے کھودا گیا

تِرے دل میں

تھکن کا چراغ بویا گیا

وہ ایک لمحہ گراں ہے مجھ پر

گرچہ میں خلا ہوں

اور خلا اپنے تسلسل میں اک خدا ہے


حسن علوی

No comments:

Post a Comment